Share button

ہمارا موجودہ تعلیمی نظام اور ہماری زمہ داری 

Hamara Taleemi nizam
بحیثیت قوم ہمیں خواب غفلت سے بیدار ہونے اور اپنے بوسیدہ تعلیمی نظام کو درست سمت پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔
 

تعلیم انسان میں شعور پیدا کرتی ہے تعلیم کی بدولت ہی انسان اچھے اور برے کی تمیز کر سکتا ہے ۔ پاکستان میں تعلیم کے شعبے میں بے شمار مسائل موجود ہیں ، لیکن ہمارا تعلیمی نظام ہمارے مسائل کو حل کرنے کے بجائے مسائل بڑھا دیتا ہے۔ ہمارے ملک میں اس وقت بھی انگریزوں کا قائم کردہ نظام تعلیم نافذ ہے جس کے ذریعہ ہم صرف کلرک ہی پیدا کرسکتے ہیں۔ ۔پاکستان میں اس وقت تین قسم کے تعلیمی نظام ہیں، نمبر ایک اردو میڈیم اسکول، نمبر دو اولیول اور کیمبرج سسٹم ، نمبر تین مدرسے۔

اس طبقاتی نظام کی وجہ سے اولیول اور کیمبرج سسٹم کے اسکولوں میں صرف دولت مند طبقے سے تعلق رکھنے والے بچے ہیں فیضیاب ہو سکتے ہیں دوسری جانب سرکاری سکول ہیں جس میں غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے بچے تعلیم حاصل کر سکتے ہیں لیکن ان اسکولوں کی حالت زار سے بھی سب واقف ہیں۔
اور دوسرا مسئلہ یہ بھی ہے اردو میڈیم اسکول میں پڑھنے والے بچے انگریزی میں کمزور ہوتے ہیں، اسے طرح انگریزی اسکولوں میں پڑھنے والے بچے اردو میں کمزور ہوتے ہیں اور مدرسوں میں صرف اسلامی مضامین کو اہمیت دی جاتی ہے اس لئے سے بچے باقی مضامین میں پیچھے رہ جاتے ہیں ۔
اس ناقص تعلیمی نظام کی وجہ سے غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے طالب علم آگے بڑھنے سے محروم رہ جاتے ہیں اور جس کے نتیجے میں پورے ملک میں اولیول اور کیمبرج طبقہ راج کرتا ہے جسے نہ تو غریب عوام کے مسائل کا اندازہ ہے اور نہ ہی وہ انہیں حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ہما ر ا تعلیمی نظام روٹی کمانا تو سکھاتا ہے مگر زندگی گزارنے کا سلیقہ نہیں۔ملک میں ناقص تعلیمی نظام کی بدولت صرف
ایک ہجوم بن رہا ہے جو بالکل بے شعوراور ادب ہے۔۔ہمیں اپنے پرانے نظام تعلیم کو ختم کرنا ہوگا اور ملک میں یکساں تعلیمی نظام کو رائج کرنا ہوگا ۔اس سلسلے میں حکومت کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل کل ہے۔اگر حکومت یکساں تعلیمی نظام قائم کر دیتی ہے تو ہمارے بہت سے مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔
 
اگر ہم یافتہ ممالک کی طرف یکھتے ہیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ تمام ترقی یافتہ ممالک میں تعلیم ان کی قومی زبان میں دی جاتی ہے جو انکی ترقی کی اہم وجہ ہے۔اگر ہمارے ملک میں قومی زبان میں تعلیم دی جائے تو اس
سے ہمیں خاطرخواہ فائدہ ہوگا ۔

ایک تحقیق کے مطابق انسان کے الفاظ کا اثر صرف 7 فیصد ہوتا ہے۔ باقی 93 فیصد اس کے لہجے اور حرکات و سکنات یعنی باڈی لینگویج کا اثر ہوتا ہے۔ استاد کا لہجہ، الفاظ کی ادائیگی اور لباس بچوں کے شخصیت پر سب سے زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں۔ جب تک قابل، تربیت یافتہ اور باکردار اساتذہ ہمارے تعلیمی نظام کا حصہ نہیں بنتے، ہمارے نوجوانوں مستقبل تابناک اور روشن نہیں ہو سکتا۔
اب بحیثیت قوم ہمیں خواب غفلت سے بیدار ہونے اور اپنے بوسیدہ تعلیمی نظام کو درست سمت پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری 60 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اگر ہم ان کو اچھی تعلیم اور تربیت فراہم کریں گے تو بہت جلد انشاللہ مملکت پاکستان بھی ترقی یافتہ مملک کی صف میں کھڑا ہو جائے گا۔
آج ہمیں جو ممالک اور اقوام دنیا میں سب سے آگے نظر آ رہی ہیں اسکی سب سے اہم اور بڑی وجہ ان کا موثر نظام تعلیم کا نفاذ ہے۔ ان ممالک میں آپ ہر وقت دنیا کا جدید ترین لیٹریچر موجود پائیں گے۔ وہاں پر ہمیں بہترین لائبریریوں کا جال بچھا ہوا نظر آئے گا۔ ان ممالک کے ہر شہر میں بہترین سائنسی تحقیقیاتی مراکز اور لبارٹریز موجود ییں۔
یورپ، امریکہ، چائینہ اور جاپان کو گالیاں دینا بہت آسان ہے مگر وہاں کے نظام درس و تدریس کو سمجھنا ہمارے حکمرانوں کے لیے بہت دشوار ہے۔ ان ممالک کے تعلیمی نظام کا جائزہ لینے اور ان کی بے مثال علمی ترقی پر غور کرنے کے لئے شاید ہم جیسے ترقی پزیر ممالک کے لوگوں کے پاس وقت نہیں ہے۔ اس لئے ہم ان کو ایک یا دو گالیاں دے کر اپنے آپ کو مطمئن کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔

ہم نے کبھی توجہ نہیں دی کہ اینڈریو کارنیگی جیسی شخصیات نے اپنی ساری دولت لٹا کر پورے امریکہ میں سائنسی تحقیقیاتی مراکز اور لائبریریاں قائم کیے تھے۔ ہم یہ جاننا نہیں چاہتے کہ یورپ میں کیمبرج اور آکسفورڈ جیسی علمی درسگاہیں کب اور کس نے قائم کی تھیں؟ ہم نے کبھی جاپان اور چین کے نظام تعلیم کو پڑھنا اور سمجھنا گوارا نہیں کیا۔



افسوسناک بات یہ ہے کہ ہم نے ان کے نظام تعلیم کو بار بار کفر کے نظام سے تعبیر کرکے ٹھکرا دیا اور ان پر کبھی غور و فکر کرنے کی زحمت گوارا نہ کی۔ ہم نے کبھی اپنے ملکی تعلیمی نظام کو ان کے برابر لانے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اگر ہم چاہتے تو ہم ان کے ہم پلہ یا اس سے بہترین اسلامی تعلیمی نظام کو قائم کرسکتے تھے۔

مگر ہم ایسا کیوں کریں گے؟ ہم نے تو ساری دنیا سے پیچھے رہنے کی قسم کھائی ہے۔ ہم بھی عجیب لوگ ہیں پہلے یورپ، امریکہ، جاپان اور چائینہ کے نظام تعلیم کو گالیاں دیتے نہیں تھکتے مگر جب کبھی ہمارے کسی بچے کو وہاں کے کسی یونیورسٹیوں میں داخلہ مل جاتا ہے تو پھر اس کو اپنی سب سے بڑی سعادت اور خوش نصیبی سمجھتے ہیں۔ جس جس شخصیت نے بھی وہاں کی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی ہے وہ آج بھی ہمارے ہیرو ہیں۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟

کاش کہ ہمارے ملک میں بھی انڈریو کارنیگی جیسی شخصیات پیدا ہوں کہ وہ اپنی دولت سے پاکستان کے ہر شہر میں بہترین سائنسی تحقیقیاتی مراکز اور جدید علوم سے آراستہ لائبرئیریاں قائم کرے۔ ہمارے پاس بھی علم اور کتاب کے قدردان پیدا ہوں۔



بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری قوم کو جعلی عاملوں اور جعلی پیروں سے فرست ہی نہیں مل رہی ہے۔ ہماری قوم اپنی ذاتی اور ملکی ترقی کے لئے کسی بہت بڑے معجزے کا انتظار کر رہی ہے۔ وہ اپنی صلاحیتوں پر بھروسا کرنے کی بجائے کسی جعلی عامل کے ہاتھوں میں اپنا مستقبل ڈھونڈ رہی ہے۔

آج کی جدید دنیا میں انسانی ذہانت کو دریافت کرنے کے لئے سائنسی مراکز میں رسرچ جاری ہے۔ شوشل انٹیلیجنس، ایموشنل انٹیلیجنس اور ملٹیپل انٹیلیجنس کی بات ہو رہی ہے۔ ان موضوعات پر سینکڑوں کتابیں لکھی اور پڑھی جا رہی ہے۔ مگر افسوس کہ ہمارے ہاں سب سے زیادہ لکھی اور پڑھی جانیوالی کتابیں جعلی آملوں اور جادوگروں کی ہیں۔
آج بھی ہمارا نوجوان قوت فیصلہ سے محروم ہے۔ اس کو پتہ ہی نہیں کہ اس نے کہاں جانا ہے؟مستقبل میں کس شعبے کا چناؤ کرنا ہے؟ اس کی سوچ کس جانب مائل ہے؟ ان کی ترجیحات کیا ہونی چاہیے؟ ہمارے تعلیمی اداروں میں کیریئر کونسلنگ جیسے اہم امور کا نام و نشان تک موجود نہیں ہے۔



ہمارے تعلیمی اداروں میں بچوں کی سماجی ذہانت کی آبیاری نہیں کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے تعلیم یافتہ افراد بھی انسانیت سے عاری ہوتے ہیں۔ ہم ڈاکٹرز، انجنیئرز، وکیل وغیرہ تو بن جاتے ہیں مگر انسان بننے سے قاصر رہتے ہیں۔ ہمارے تعلیمی یافتہ افراد میں بھی وحشی درندوں جیسے صفات پائی جاتی ہیں۔

ہمارے استاد کو فزکس، کمسٹری اور بائیو وغیرہ تو آتا ہے مگر پڑھانا نہیں آتا۔ ہمارے اکثر اساتذہ کرام کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ بچوں کو سبق کیسے سکھایا اور سمجھایا جاتا ہے۔ ہمارا استاد اعلیٰ اخلاقی اقدار سے عاری ہیں۔ ہمارے اساتذہ شاہین پیدا کرنے کی بجائے کوے پیدا کر رہے ہیں۔ ہمارے استاد نہیں جانتے کہ بچوں کو سبق پڑھانے سے پہلے تیاری بھی کرنی ہوتی ہے۔ استاد کی کردار سازی پر توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
ہمیں یہ سوچنا چاہو گا کہ ہم سے غلطی کہاں ہو رہی ہے۔ ہم سے غلطی اپنے نظام تعلیم کے معاملے میں ہو رہی ہے۔ اسی وجہ سے ہم دنیا میں حقیقی ترقی نہیں کر پا رہے۔

آج ہمیں جو ممالک اور اقوام دنیا میں سب سے آگے نظر آ رہی ہیں اسکی سب سے اہم اور بڑی وجہ ان کا موثر نظام تعلیم کا نفاذ ہے۔ ان ممالک میں آپ ہر وقت دنیا کا جدید ترین لیٹریچر موجود پائیں گے۔ وہاں پر ہمیں بہترین لائبریریوں کا جال بچھا ہوا نظر آئے گا۔ ان ممالک کے ہر شہر میں بہترین سائنسی تحقیقیاتی مراکز اور لبارٹریز موجود ییں۔



یورپ، امریکہ، چائینہ اور جاپان کو گالیاں دینا بہت آسان ہے مگر وہاں کے نظام درس و تدریس کو سمجھنا ہمارے حکمرانوں کے لیے بہت دشوار ہے۔ ان ممالک کے تعلیمی نظام کا جائزہ لینے اور ان کی بے مثال علمی ترقی پر غور کرنے کے لئے شاید ہم جیسے ترقی پزیر ممالک کے لوگوں کے پاس وقت نہیں ہے۔ اس لئے ہم ان کو ایک یا دو گالیاں دے کر اپنے آپ کو مطمئن کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔

ہم نے کبھی توجہ نہیں دی کہ اینڈریو کارنیگی جیسی شخصیات نے اپنی ساری دولت لٹا کر پورے امریکہ میں سائنسی تحقیقیاتی مراکز اور لائبریریاں قائم کیے تھے۔ ہم یہ جاننا نہیں چاہتے کہ یورپ میں کیمبرج اور آکسفورڈ جیسی علمی درسگاہیں کب اور کس نے قائم کی تھیں؟ ہم نے کبھی جاپان اور چین کے نظام تعلیم کو پڑھنا اور سمجھنا گوارا نہیں کیا۔

ایک تحقیق کے مطابق انسان کے الفاظ کا اثر صرف 7 فیصد ہوتا ہے۔ باقی 93 فیصد اس کے لہجے اور حرکات و سکنات یعنی باڈی لینگویج کا اثر ہوتا ہے۔ استاد کا لہجہ، الفاظ کی ادائیگی اور لباس بچوں کے شخصیت پر سب سے زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں۔ جب تک قابل، تربیت یافتہ اور باکردار اساتذہ ہمارے تعلیمی نظام کا حصہ نہیں بنتے، ہمارے نوجوانوں مستقبل تابناک اور روشن نہیں ہو سکتا۔

ہمیں یہ سوچنا چاہو گا کہ ہم سے غلطی کہاں ہو رہی ہے۔ ہم سے غلطی اپنے نظام تعلیم کے معاملے میں ہو رہی ہے۔ اسی وجہ سے ہم دنیا میں حقیقی ترقی نہیں کر پا رہے۔


ہمارے تعلیمی مسائل کا حل

ہمارے سیاسی رہنما تعلیمی نظام کی تبدیلی کے لیے کسی ایک نکتے پر (ملک و قوم کی خاطر) متفق ہوجائیں اور نظامِ تعلیم کو بہتری کی طرف لے جائیں

۔ نصاب پر نظرثانی

دنیا میں بہت تیزی سے تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں، ۔ لیکن ہمارا نصاب، نصاب کا معیار، درسی کتابیں، اور کتب خانے وہی ہیں جو آج سے برسوں پہلے تھے۔ ان میں کوئی مثبت تبدیلی نظر نہیں آتی۔۔اسکے لیے ضروری ہے کہ تعلیمی
نصاب میں ہر چار پانچ سال کے بعد نظرثانی کی جائے۔

تعلیمی بجٹ میں اضافہ

تعلیمی بجٹ میں سنجیدگی سے اضافہ کیا جائے اور اس کا ایمان داری سے استعمال کرتے ہوئے تعلیمی نظام کو جدید بنایا جائے۔

رٹا سسٹم کا خاتمہ

اس وقت سخت ضرورت ہے کہ اپنے تعلیمی نظام سے رٹا کلچر کا خاتمہ کیا جائے۔ اس کےلیے امتحانی نظام، درسی کتابوںاور نصاب میں ضروری تبدیلی کرتے ہوئے پیپرز کو مکمل معروضی طرز کا بنایا جائے۔(Mcqs )

اب بحیثیت قوم ہمیں خواب غفلت سے بیدار ہونے اور اپنے بوسیدہ تعلیمی نظام کو درست سمت پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری 60 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اگر ہم ان کو اچھی تعلیم اور تربیت فراہم کریں گے تو بہت جلد انشاللہ مملکت پاکستان بھی ترقی یافتہ مملک کی صف میں کھڑا ہو جائے گا۔ آمین

بیرونی ذرائع

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *